مجھے شاخ شاخ سے توڑنا
مجھے شاخ شاخ سے توڑنا
پھر بیچ بیچ سے جوڑنا…
یہ ادا ادا بھی کمال ہے
یہ سزا سزا بھی کمال ہے…
یہ شام شام کے دھندلکے اور قطرہ قطرہ سی بارشیں
مجھے پیاس پیاس میں ڈال کے
پھر دشت دشت میں چھوڑنا
یہ اداس اداس اداسیاں
اور دور دور کی دوریاں
مجھے اشک اشک بکھیر کے
پھر ہنس ہنس کر سمیٹنا
یہ آگ آگ کا کھیل ہے
اسے روز روز نہیں کھیلنا
مجھے ورق ورق کھولنا
پھر حرف حرف پہ سوچنا
یہ جفا جفا کے راستے
اور وفا وفا کی منزلیں
مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کے ڈھونڈنا
پھر چھوڑ چھوڑ کے چھوڑنا
وہ چہرہ چہرہ حجاب ہے
مرے درد درد کا علاج ہے
مجھے دور دور سے دیکھنا
مجھے مرض مرض کا بھولنا
یہ ادا ادا بھی کمال ہے
یہ سزا سزا بھی کمال ہے ..!
___________________
ہونٹوں پہ ساحلوں کی طرح تشنگی رہی
میں چپ ہوا تو میری انا چیختی رہی
اک نام کیا لکھاتیرا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے میری دشمنی رہی
سڑکوں پہ سرد رات رہی میری ہمسفر
آنکھوں میں میرے ساتھ تھکن جاگتی رہی
یادوں سے کھیلتی رہی تنہائی رات بھر
خوشبو کے انتظار میں شب بھیگتی رہی
وہ لفظ لفظ مجھ پہ اترتا رہا محسن
سوچوں پہ اس کے نام کی تختی لگی رہی
______________________
یہ تعلق بھی بہت خوب رہا ہے کچھ دن__!
تُو میرے نام سے منسوب رہا ہے کچھ دن__!
آنکھ رو رو کے تیری راہ تکا کرتی تھی____!
دل تیری یاد سے مغلوب رہا ہے کچھ دن___!
تیری تسبیح بنا کر تجھے سوچا کرنا___!
مشغلہ یہ میرا مرغوب رہا ہےکچھ دن____!
شاید اس بات کا مطلب میں سمجھ نہ پاؤں!
کیوں میرا دل تجھے مطلوب رہا ہے کچھ دن!
بارشِ سنگ سے پہلے یہ ذرا سوچ تو لیا ہوتا!
تیرا محسن تیرا محبوب رہا ہے کچھ دن___!
______________________
تمہارا آخری میسج میرے
انباکس میں رکھا ہے
اس میں تم نے لکھا ہے
مجھے اب بھول جانا تم
۔
جدائی پھانس بھی ہو تو
صبر سے جھول جانا تم
مجھے اپنی قسم دی ہے
میری تو جان لے لی ہے
۔
مگر میں جان دے کر بھی
آخر تک نبھاوں گا
میں تجھ کو بھول جاوں گا
۔
مگر تم سے میری فقط
یہ زرا سی گزارش ہے
میری آنکھوں میں مت رہنا
میرے دل سے اتر جانا
۔
بھلانے بھول جانے میں
میں تجھے یاد کرلوں تو
مجھے تم یاد نہ آنا
کبھی بھی یاد نہ آنا
________________
چھوڑ جانے کو مری راہ میں آتا کیوں ہے
آ ہی جاتا ھے تو پھر چھوڑ کے جاتا کیوں ھے
آسرا اجنبی دیوار بھی دے دیتی ھے
یار شانے سے مرا ہاتھ ہٹاتا کیوں ھے
روز ہاتھوں سے ترے گر کے فنا ہوتا ھوں
دشتِِ ہستی سے مرا نقش اٹھاتا کیوں ھے
کس سے پوچھوں کہ شبِ ماہ نہ آنے والا
چاندنی بھیج کے اُمّید جگاتا کیوں ہے
میں تو ویسے ہی تجھے مٹ کے ملا کرتا ھوں
دل کے شیشے سے مرا عکس مٹاتا کیوں ہے
رائگانی میں کئی بار خدا سے پوچھا
میں اگر کچھ نہیں بنتا تو بناتا کیوں ہے
اب تو اُس آخری انکار کو مدت گذری
اب بھی اُس حسنِ جفا کیش سے ناتا کیوں ہے
لے پھر اب خود ہی اُٹھا قضیہء دین و دنیا
میری جب سُنتا نہیں ، بیچ میں لاتا کیوں ہے
