بس ایک معافی ، ہماری توبہ کبھی جو ایسے ستائیں تم کو
بس ایک معافی ، ہماری توبہ کبھی جو ایسے ستائیں تم کو
لو ہاتھ جوڑے ، لو کان پکڑے ، اب اور کیسے منائیں تم کو
تمہارے آتے ہی اس نگر سے، ہمیں رقابت سی ہو گئی ہے
میں یہ شرارت بھی کیسے سہہ لوں کہ چھو رہی ہیں ہوائیں تم کو
تم آئینہ ہو اور سنگباری یہاں کے لوگوں کا مشغلہ ہے
ہر ایک پتھر سے ڈھال بن کر،بھلا کہاں تک بچائیں تم کو
جو سچ کہیں تو ، تمھیں تو غصے نے اور دلکش بنا دیا ہے
ہمارے من کو تو سوجھتا ہے ، اب اورغصہ دلائیں تم کو
تو کیا تم اب تک ، ہماری نظروں کے سب تقاضوں سے بے خبر ہو؟
ہمیں محبت ہے تم سے پاگل، اب اور کیسے بتائیں تم کو
بتائیں تم کو بچھڑتے لمحے ، لبوں کی لغزش کا کیا سبب تھا؟
سنا تھا وقتِ قبولیت ہے ، سو دے رہے تھے دعائیں تم کو
________________
کوئی تو ہوتا
کوئی تو ہوتا
میں جس کے دل کی کتاب بنتا
میں جس کی چاہت کا خواب بنتا
میں ہجر کے موسم کی لمبی راتوں میں
یاد بن کر عذاب بنتا
جو میری خواہش میں اُٹھ کے راتوں کو خوب روتا
دُکھوں کی چادر لپیٹ کر ہجومِ دنیا سے دور ہوتا
میں رُوٹھ جاتا مناتا مجھ کو
کہ چاہے میرا قصور ہوتا
کوئی تو ہوتا
میں جس کے اتنا قریب ہوتا
نہ پاس کوئی رقیب ہوتا
میں تنہا اُس کا حبیب ہوتا
یہ سلسلہ بھی عجیب ہوتا
کوئی تو ہوتا
کاش!
کوئی تو ہوتا
___________________
تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
تیری ہر بات محبت میں گوارا کر کے
دل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارہ کر کے
آتے جاتے ہیں کئی رنگ مرے چہرے پر
لوگ لیتے ہیں مزا ذکر تمہارا کر کے
ایک چنگاری نظر آئی تھی بستی میں اسے
وہ الگ ہٹ گیا آندھی کو اشارہ کر کے
آسمانوں کی طرف پھینک دیا ہے میں نے
چند مٹی کے چراغوں کو ستارہ کر کے
میں وہ دریا ہوں کہ ہر بوند بھنور ہے جس کی
تم نے اچھا ہی کیا مجھ سے کنارہ کر کے
منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے
چاند کو چھت پر بلا لوں گا اشارہ کر کے
